رکو تو ہم بتائیں..!!

157 7 1
                                    

رُکو تو تم کو بتائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں
کلی اَکیلے اُٹھائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

طبیب نے کہا ، گر رَنگ گورا رَکھنا ہے
تو چاندنی سے بچائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

وہ بادلوں پہ کمر سیدھی رَکھنے کو سوئیں
کرن کا تکیہ بنائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

وہ  نیند کے لیے شبنم کی قرص بھی صاحب
بغیر پانی نہ کھائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

بدن کو چومیں جو بادل تو غسل ہوتا ہے
دَھنک سے غازہ لگائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

وہ دو قدم بھی چلیں پانی پہ تو چھالے دیکھ
گھٹائیں گود اُٹھائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

کلی چٹکنے کی گونجے صدا تو نازُک ہاتھ
حسین کانوں پہ لائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

پسینہ آئے تو دو تتلیاں قریب آ کر
پروں کو سُر میں ہلائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

ہَوائی بوسہ پری نے دِیا ، بنا ڈِمپل
خیال جسم دَبائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

وہ گھپ اَندھیرے میں خیرہ نگاہ بیٹھے ہیں
اَب اور ہم کیا بجھائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

وہ گیت گائیں تو ہونٹوں پہ نیل پڑ جائیں
سخن پہ پہرے بٹھائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

جناب کانٹا نہیں پنکھڑی چبھی ہے اُنہیں
گھٹا کی پالکی لائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

کبوتروں سے کراتے ہیں آپ جو جو کام
وہ تتلیوں سے کرائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

وہ پانچ خط لکھیں تو ’’شکریہ‘‘ کا لفظ بنے
ذِرا حساب لگائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

گواہی دینے وہ جاتے تو ہیں پر اُن کی جگہ
قسم بھی لوگ اُٹھائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

ہر ایک کام کو ’’مختارِ خاص‘‘ رَکھتے ہیں
سو عشق خود نہ لڑائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

وہ سانس لیتے ہیں تو اُس سے سانس چڑھتا ہے
سو رَقص کیسے دِکھائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

بس اِس دلیل پہ کرتے نہیں وہ سالگرہ
کہ شمع کیسے بجھائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

اُتار دیتے ہیں بالائی سادہ پانی کی
پھر اُس میں پانی ملائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

ُوہ سیر ، صبح کی کرتے ہیں خواب میں چل کر
وَزن کو سو کے گھٹائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

کلی کو سونگھیں تو خوشبو سے پیٹ بھر جائے
نہار منہ یہی کھائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

وَزن گھٹانے کا نسخہ بتائیں کانٹوں کو
پھر اُن کو چل کے دِکھائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

وہ دَھڑکنوں کی دَھمک سے لرزنے لگتے ہیں
گلے سے کیسے لگائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

نزاکت ایسی کہ جگنو سے ہاتھ جل جائے
جلے پہ اَبر لگائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

حنا لگائیں تو ہاتھ اُن کے بھاری ہو جائیں
سو پاؤں پر نہ لگائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

وہ تِل کے بوجھ سے بے ہوش ہو گئے اِک دِن
سہارا دے کے چلائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

کل اَپنے سائے سے وہ اِلتماس کرتے تھے
مزید پاس نہ آئیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

وہ تھک کے چُور سے ہو جاتے ہیں خدارا اُنہیں
خیال میں بھی نہ لائیں ، وہ اِتنے نازُک ہیں

شہزاد قیس

شاعری💕💕Nơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ