آخری چہرہ

37 2 1
                                    

"آخری چہرہ"

یہ میری زیست سے کافی پرے
سہمی ہوئی آنکھیں
کئی چہرے گنوا بیٹھیں
گنوائے بھی ہیں کچھ ایسے
کہ اب وہ سامنے ہو کر بھی انکو دکھ نہیں پاتے

یہ میری شام سے زیادہ اداسی سے بھری آنکھیں
یہ میری زیست سے کافی پرے آنکھیں
کئی چہرے گنوا بیٹھیں

سنو یہ آخری چہرہ
جسے میں پیار سے دیکھوں تو آنکھیں روشنی سے بھر سی جاتی تھیں
خوشی کے رنگ بھرتے تھے
اسے اب پیار سے دیکھوں
تو اب بھی رنگ سے کچھ بھرنے لگتے ہیں
یہ اب بھی جگمگا اٹھتی ہیں تیرے چہرے پہ پڑ کر
مگر یہ جگمگاہٹ اب آنسوؤں کے جگنوؤں کی ہے
اب ان میں رنگ تو بھرتے ہیں
لیکن اداسی کے
بے بسی کے بد حواسی کے

سنو یہ آخری چہرہ
اسے کھونے سے ڈرتی ہوں
اسے اب دیکھنے پر
کھو چکے چہروں کا بھی دکھ یاد آتا ہے
تو دل آنسو بہاتا ہے

سنو یہ آخری چہرہ
اسے بھی کھو ہی جانا ہے
سو میں جی بھر کے اسے
اپنی یاس میں ڈوبی ہوئی آنکھوں کے
اداس البم میں سجاتی ہوں
سنو یہ آخری چہرہ
نظر کے سامنے ہو تو
اسے میں دیکھے جاتی ہوں

مجھے معلوم ہے کہ
یہ بھی جدا اب ہو ہی جانا ہے
میرا یہ آخری چہرہ بھی
مجھ سے کھو ہی جانا ہے

تعبیر

شاعری💕💕Where stories live. Discover now