اَدائیں حشر جگائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
خیال حرف نہ پائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
بہشتی غنچوں میں گوندھا گیا صراحی بدن
گلاب خوشبو چرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےقدم ، اِرم میں دَھرے ، خوش قدم تو حور و غلام
چراغ گھی کے جلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےدِہکتا جسم ہے آتش پرستی کی دعوت
بدن سے شمع جلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےغزال قسمیں ستاروں کی دے کے عرض کریں
حُضور! چل کے دِکھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےچمن کو جائے تو دَس لاکھ نرگسی غنچے
زَمیں پہ پلکیں بچھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےکڑکتی بجلیاں جب جسم بن کے رَقص کریں
تو مور سر کو ہلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےحسین پریاں چلیں ساتھ کر کے ’’سترہ‘‘ سنگھار
اُسے نظر سے بچائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےیہ شوخ تتلیاں ، بارِش میں اُس کو دیکھیں تو
اُکھاڑ پھینکیں قبائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےوُہ پنکھڑی پہ اَگر چلتے چلتے تھک جائے
تو پریاں پیر دَبائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےوُہ چاند عید کا اُترے جو دِل کے آنگن میں
ہم عید روز منائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےزَمیں پہ خِرمنِ جاں رَکھ کے ہوشمند کہیں
بس آپ بجلی گرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےجنہوں نے سائے کا سایہ بھی خواب میں دیکھا
وُہ گھر کبھی نہ بسائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےاُداس غنچوں نے جاں کی اَمان پا کے کہا
یہ لب سے تتلی اُڑائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےکمر کو کس کے دوپٹے سے جب چڑھائے پینگ
دِلوں میں زَلزلے آئیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےوُہ آبشار میں بندِ قبا کو کھولے اَگر
تو جھرنے پیاس بجھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےشریر مچھلیاں کافِر کی نقل میں دِن بھر
مچل مچل کے نہائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےحلال ہوتی ہے ’’پہلی نظر‘‘ تو حشر تلک
حرام ہو جو ہٹائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےجو کام سوچ رہے ہیں جناب دِل میں اَبھی
وُہ کام بھول ہی جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےنہا کے جھیل سے نکلے تو رِند پانی میں
مہک شراب سی پائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےچرا کے عکس ، حنا رَنگ ہاتھ کا قارُون
خزانے ڈُھونڈنے جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےکُنواری دِیویاں شمعیں جلا کے ہاتھوں پر
حیا کا رَقص دِکھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےچنے گلاب تو لگتا ہے پھول مل جل کر
مہکتی فوج بنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےغزال نقشِ قدم چوم چوم کر پوچھیں
کہاں سے سیکھی اَدائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےسرہانے میر کے ٹُک فاتحہ کو گر وُہ جھکے
تو میر جاگ ہی جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےحسین تتلیاں پھولوں کو طعنے دینے لگیں
کہا تھا ایسی قبائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےاَگر لفافے پہ لکھ دیں ، ’’ملے یہ ملکہ کو‘‘
تو خط اُسی کو تھمائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےعقیق ، لولو و مرجان ، ہیرے ، لعلِ یمن
اُسی میں سب نظر آئیں ، وُہ اتنا دلکش ہےگلاب ، موتیا ، چنبیلی ، یاسمین ، کنول
اُسے اَدا سے لُبھائیں ، وُہ اتنا دلکش ہےمگن تھے مینہ کی دُعا میں سبھی کہ وُہ گزرا
بدل دیں سب کی دُعائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےشراب اور ایسی کہ جو ’’دیکھے‘‘ حشر تک مدہوش
نگاہ رِند جھکائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےنُجومی دیر تلک بے بسی سے دیکھیں ہاتھ
پھر اُس کو ہاتھ دِکھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےبدل کے ننھے فرشتے کا بھیس جن بولا
مجھے بھی گود اُٹھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےہمیں تو اُس کی جھلک مست مور کرتی ہے
شراب اُسی کو پلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےبہانے جھاڑُو کے پلکوں سے چار سو پریاں
قدم کی خاک چرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےوُہ چُومے خشک لبوں سے جو شبنمِ گُل کو
تو پھول پیاس بجھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےکبھی کبھی ہمیں لگتا ہے بھیگے لب اُس کے
ہَوا میں شہد ملائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےمکین چاند کے بیعت کو جب بلاتے ہیں
دَھنک کی پالکی لائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےجفا پہ اُس کی فدا کر دُوں سوچے سمجھے بغیر
ہزاروں ، لاکھوں وَفائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےسفید جسم جو لرزے ذِرا سا بارِش میں
تو اَبر کانپ سے جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےجو اُس کو چومنا چاہیں ، اَگر وُہ چومنے دے
تو چوم پھر بھی نہ پائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےستارے توڑ کے لانے کی کیا ضرورت ہے
ستارے دوڑ کے آئیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےچمن میں اُس نے جہاں دونوں بازُو کھولے تھے
وَہاں کلیسا بنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےہم اُس کے چہرے سے نظریں ہٹا نہیں سکتے
گلے سے کیسے لگائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےوُہ جتنا جسم تھا ، اُتنا غزل میں ڈھال لیا
طلسم کیسے دِکھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےغلام بھیجتا ، سر آنکھوں پر بٹھا لیتے
اُسے کہاں پہ بٹھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےتمام آئینے حیرت میں غرق سوچتے ہیں
اُسے یہ کیسے بتائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےزَبان وَصف سے عاجز ، حُروف مفلس تر
قلم گھسیٹ نہ پائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےطلسمِ حُسن ہے موجود لفظوں سے اَفضل
لغت جدید بنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہےقسم ہے قیس تجھے توڑ دے یہیں پہ قلم
رَفیق مر ہی نہ جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
YOU ARE READING
شاعری💕💕
Poetryیہ میری کچھ چنی ہوئی پسندیدہ شاعری ہے جنہیں میں ہر وقت پڑھنا اور گنگنانا پسند کرتی ہوں۔۔۔۔امید ہے کہ آپ لوگوں کو بھی پسند آجاۓ۔۔