فضول سی خواہش

42 1 1
                                    

میں بہت بیمار ہوں
اس نے تھکن سے چور آواز میں کہا
کیسے بیمار ہو
تم تو پہلے سے بہتر لگتی ہو اب
نہیں سچ میں
میں بہت بیمار ہوں
میرا دل بیمار ہے
کبھی کبھی مجھے لگتا میرے اندر بہت تیز بخار دل کو جلا رہا ہے
ہمم
دیکھو
مجھے کسی کا لمس محسوس نہیں ہوتا
مجھے دکھ میں رونا نہیں آ پاتا
مجھے خوشی میں درد ہونے لگتا ہے
مجھے ہوش نہیں ہے
یقین مانو
اسکی قسم
مجھے ہوش نہیں ہے
تمہیں پتا
میرے لیے رات اور دن کا فرق ختم ہوچکا ہے
میرے لیے خوشی اور دکھ بے معنی ہوتے جا رہے ہیں
تمہیں پتا
مجھے جینے کا شوق نہیں رہا
مجھے مرنے کی تمنا نہیں رہی
ایسی زندگی کیا زندگی ہوتی ہے بھلا
جہاں کچھ بھی نہ ہو
کچھ بھی نہیں
میری صورت بتاتی ہے میں ٹھیک ہوں
پر دیکھو
میری آواز سنو
میری آواز کے سر جب میرے دل سے جڑتے ہیں دل کی بیماری آواز میں ظاہر ہونے لگتی ہے
اور پتا
میری ایک خواہش...
ایک بار وہ میری بیماری کا حال جانے
میری آواز سے
تمہیں پتا
اسکے ملنے سے پہلے بھی میرا دل میری آواز کو. بیمار کر دیتا تھا
اب بھی کردیتا ہے
لوگ میری آواز سے مجھے بیمار سمجھ لیتے ہیں
اسے ایک بار میری آواز میری بیماری کا بتا دے نا
بس ایک بار وہ مجھے سنے اور پوچھے تم بیمار ہو کیا
کیا ہوگا اس سے خواہش سے؟
نہیں کچھ نہیں ہوگا
بس فضول سی خواہش
اور آخری میں بیمار سی ہنسی ہنسی
تم کبھی اسے ملو نا
تو اسے مت بتانا
کسی نے اس پہ صرف دل نہیں ہارا
سب کچھ ہار دیا ہے
میری حالت. کا گواہ صرف میرا رب ہے
اور رب کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا نا

سو میں دھوکہ نہیں دے رہی
میں انسانوں والے مکر نہیں کررہی...

ت ع

شاعری💕💕Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang